Search This Blog

Friday, January 24, 2025

کیا ہم بدتمیزی کو کلچر کا حصہ بنا چکے ہیں؟ ایک تلخ حقیقت کا سامنا"

 


اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ جب کسی چوک یا گلی سے گزرتے وقت نوجوان لڑکے، خاص طور پر وہ جن کی عمریں 16 یا 17 سال کے قریب ہوتی ہیں، کسی خاتون کو گزرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کا رویہ یکدم بدل جاتا ہے۔ وہ بلند آواز میں باتیں کرنے لگتے ہیں یا بے مقصد جملے اچھالنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف بدتہذیبی کی علامت ہے بلکہ ہماری سماجی اخلاقیات پر بھی سوالیہ نشان ہے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا یہ صرف عمر کا تقاضا ہے، یا اس کے پیچھے ہماری تربیت اور معاشرتی رویوں کا ہاتھ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اکثر لڑکوں کو شروع سے ہی یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کا اظہار بغیر کسی روک ٹوک کے کر سکتے ہیں، چاہے اس سے دوسرے کو تکلیف پہنچے یا نہ پہنچے۔ ان کے رویوں پر روک ٹوک کم کی جاتی ہے، اور یہی آزادی ان کی عادتوں کا حصہ بن جاتی ہے۔

خواتین کے ساتھ ہونے والے اس رویے کے پیچھے ایک اور پہلو بھی ہے، جو ہماری سماجی بے حسی کو نمایاں کرتا ہے۔ لڑکیاں یا خواتین جب ایسی صورتحال کا سامنا کرتی ہیں تو انہیں "خاموش رہنے" کی تلقین کی جاتی ہے۔ انہیں یہی سکھایا جاتا ہے کہ وہ اس بدتمیزی کو نظر انداز کر دیں، ورنہ ان کی "عزت" پر حرف آئے گا۔ یہی رویہ بدتمیز لوگوں کو مزید حوصلہ دیتا ہے۔

ہمیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو تربیت دینی ہوگی کہ عزت ہر انسان کا بنیادی حق ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ عورت کی گزرگاہ کو تماشہ بنانا یا اس کے لیے ماحول کو غیر محفوظ بنانا ایک جرم ہے، جو نہ صرف اخلاقیات کے خلاف ہے بلکہ قانوناً بھی قابل سزا ہے۔

معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تربیت پر دھیان دیں۔ اس کے علاوہ، تعلیمی ادارے اور کمیونٹی سینٹرز کو بھی ایسے پروگرامز منعقد کرنے چاہئیں جو نوجوانوں کو اخلاقیات، عزت نفس، اور دوسروں کے حقوق کے احترام کا درس دیں۔

یہ رویے صرف خواتین کو نہیں بلکہ ہمارے پورے معاشرتی ڈھانچے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایک مہذب معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان چھوٹے لیکن اہم پہلوؤں پر توجہ دیں اور اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لائیں۔ یہ تبدیلی صرف ہماری نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی بھی ضرورت ہے۔


No comments: