Search This Blog

Saturday, December 21, 2024

مرد کا دل نہیں؟تحریر ساحرہ ظفر

 

ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں مرد کو صرف ایک کردار کی صورت میں دیکھا جاتا ہے—مضبوط، غیر متزلزل، اور جذبات سے عاری۔ جیسے وہ لوہے کا بنا ہو، جسے کوئی دکھ، کوئی تکلیف نہیں پہنچتی۔ یہی سوچ اسے انسان کی جگہ ایک مشین میں بدل دیتی ہے۔ کسی گھر میں موت ہو تو میت کو ہمیشہ خواتین کے حصے میں رکھا جاتا ہے، اور مرد باہر کھڑے ہوتے ہیں، جیسے ان کا اس غم سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ ایک بھائی اپنی بہن کے بچھڑنے پر آنسو نہیں بہا سکتا، ایک بیٹا اپنے والد کے جنازے پر دکھ ظاہر نہیں کر سکتا، کیونکہ معاشرہ اسے یاد دلاتا ہے: "تم مرد ہو، مضبوط بنو!" لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مرد انسان نہیں؟ کیا ان کے سینے میں دل نہیں دھڑکتا؟


یہ جملہ "مرد ہو، کمزور نہ بنو!" صرف ایک نصیحت نہیں، بلکہ وہ زنجیر ہے جو مرد کو اپنے جذبات قید کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف ان کی نفسیات پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ ان کے رشتوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ہم نے مردوں کو رونے سے، غم کے اظہار سے، اور اپنی کمزوری ظاہر کرنے سے محروم کر دیا ہے۔ وہ اندر ہی اندر ٹوٹتے رہتے ہیں، لیکن انہیں اس ٹوٹ پھوٹ کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں۔ ایسے معاشرے میں جہاں جذبات کا اظہار کمزوری سمجھا جاتا ہے، مرد اپنی تمام تکلیفوں کو ایک خاموش چیخ کی صورت میں اپنے دل میں دفن کر لیتے ہیں۔


یہ رویہ نہ صرف غیر انسانی ہے بلکہ خطرناک بھی۔ جذبات کو دبانا اور ہمیشہ "مضبوط" بننے کی کوشش کرنا مردوں کی ذہنی صحت کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مرد بھی انسان ہیں، ان کا دل بھی دکھتا ہے، وہ بھی غم سہتے ہیں۔ لیکن ہمارے سماج میں انہیں اس کا اظہار کرنے کا حق نہیں دیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مرد جذباتی دباؤ کا شکار ہو کر نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں یا خود کو تنہا محسوس کرنے لگتے ہیں۔


ہمیں اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ مرد کو جذباتی طور پر سپورٹ دینا، ان کے دکھ کو سمجھنا، اور انہیں اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا موقع دینا ضروری ہے۔ یہ تسلیم کرنا کہ مرد بھی انسان ہیں، نہ صرف ان کی زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے بلکہ معاشرتی توازن کو بھی بحال کر سکتا ہے۔ مرد کا دل بھی اتنا ہی حساس ہوتا ہے جتنا کسی عورت کا۔ وہ بھی محبت کرتے ہیں، وہ بھی بچھڑنے کے غم میں ٹوٹتے ہیں، اور وہ بھی تسلی چاہتے ہیں۔ اگر ہم واقعی ایک بہتر معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں مردوں کو مضبوطی کے نام پر جذبات سے محروم کرنے کی روش کو ختم کرنا ہوگا۔


No comments: