ایک لکھاری کا قلم محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک عہد ہے، ایک تحریک ہے جو دلوں کو چھوتی اور ذہنوں کو روشنی دیتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں، جہاں تضاد اور الجھنیں پہلے ہی سوچ کو بوجھل کر رہی ہیں، ایک لکھاری کی ذمہ داری دوگنی ہو جاتی ہے۔ اس کا ہر لفظ نہ صرف خیالات کی عکاسی کرے بلکہ سوچ کو ایک مثبت سمت بھی عطا کرے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرتی مسائل گہرے ہیں۔ محبت، پیسہ، اور اخلاقی اقدار جیسے موضوعات پر بحث کرتے ہوئے اکثر لوگ یا تو جذبات میں بہہ جاتے ہیں یا حقیقت سے فرار اختیار کر لیتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ایک لکھاری کی دانشمندی کا امتحان ہوتا ہے۔ وہ ان مسائل کو اجاگر کرنے کے بجائے ان کے اندر چھپے حل کے بیج تلاش کرتا ہے اور انہیں اپنے الفاظ کے ذریعے قارئین کے دلوں میں بو دیتا ہے۔
لکھاری کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے الفاظ کس طرح الجھن کو سلجھا سکتے ہیں اور تضاد کو روشنی میں بدل سکتے ہیں۔ قلم کو ایک مشعل بنانا، جو قاری کے ذہن کو روشنی دکھائے، اور ایسا رجحان قائم کرنا جو انفرادی اور اجتماعی ترقی کا راستہ ہموار کرے، یہی ایک کامیاب لکھاری کا کمال ہے۔
لہٰذا، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا قلم صرف مسائل کا آئینہ نہ بنے بلکہ امید کا چراغ بھی ہو۔ ہم صرف سوالات نہ اٹھائیں بلکہ جوابات بھی تلاش کریں۔ ہم صرف تنقید نہ کریں بلکہ تعمیر کریں۔ اور یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں تضاد سے روشنی کی طرف لے جائے گا۔
No comments:
Post a Comment