تحریر ساحرہ ظفر
یقین، حوصلہ اور حق کی طاقت — یہی وہ عناصر ہیں جو تاریخ کے ہر دور میں اندھیرے کو چیر کر روشنی کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ دنیا کے ہر فرعون نے اپنے آپ کو ناقابلِ شکست سمجھا، اپنی طاقت، اپنی حکومت، اور اپنے جبر کو ہمیشہ کے لیے قائم رکھنے کا خواب دیکھا۔ لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر فرعون کے مقابل ایک موسیٰ ضرور کھڑا ہوتا ہے۔
"ہر فرعون سے ایک موسیٰ ضرور ٹکراتا ہے"
یہ محض ایک جملہ نہیں، بلکہ ایک نظریہ ہے — ایک پیغام، ایک امید، ایک للکار۔ یہ جملہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ باطل کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، حق ہمیشہ اس کے مقابل آتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ صرف مذہبی کہانی نہیں، بلکہ انسانیت کی تاریخ میں حق و باطل کی ایک زندہ مثال ہے۔ جب فرعون نے اپنے غرور، ظلم اور جبر کی انتہا کر دی، جب انسانیت چیخنے لگی، تب موسیٰ علیہ السلام کو رب نے کھڑا کیا۔ نہ تلوار، نہ لشکر، نہ دولت — صرف ایک لاٹھی اور یقین، اور فرعون کی سلطنت زمیں بوس ہو گئی۔
آج کا معاشرہ دیکھیں تو کیا ہمیں نئے فرعون نظر نہیں آتے؟
یہ فرعون اب صرف محلات میں بیٹھے بادشاہ نہیں، یہ طاقت کے نشے میں بدمست حکمران بھی ہو سکتے ہیں، ظالم سرمایہ دار، جابرانہ نظامِ تعلیم، جھوٹی میڈیا، مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے، یا وہ سوچ جو کمزور کو کچلنے میں فخر محسوس کرے۔ آج کا فرعون وہ بھی ہے جو عورت کو عزت کے بجائے جائیداد سمجھے، وہ بھی جو مزدور کی محنت کا حق کھا جائے، اور وہ بھی جو انصاف کا سودا کر کے طاقتوروں کے قدموں میں جھک جائے۔
آج کے فرعون کا انداز مختلف ہے، لیکن فطرت وہی ہے:
میں سب سے بلند ہوں، مجھے کوئی نہیں گرا سکتا، میرے سامنے کوئی آواز نہ اٹھائے۔
لیکن تاریخ کی عدالت میں ہر فرعون کی یہی گردن جھکی ہے۔
اور ہاں، آج بھی موسیٰ زندہ ہیں۔
وہ ماں جو غربت میں بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کا عزم رکھتی ہے،
وہ طالبعلم جو کتاب کے ذریعے ظلم کو للکارتا ہے،
وہ استاد جو سچ بولنے سے نہیں ڈرتا،
وہ سوشل ورکر جو گلی گلی، بستی بستی روشنی بانٹتا ہے،
وہ عورت جو مظلوم ہونے کے باوجود اپنی بیٹیوں کے لیے کھڑی ہوتی ہے،
وہ نوجوان جو کرپشن کے خلاف آواز اٹھاتا ہے — یہی آج کے موسیٰ ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو ظلم کے خلاف خاموش نہیں بیٹھتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ٹوٹتے ہیں مگر جھکتے نہیں۔ جو کہتے ہیں:
"ہم باطل سے نہیں ڈرتے، ہم سچ پر قائم رہیں گے، ہم ٹکرائیں گے۔"
پاکستانی معاشرے میں ہمیں ہر طبقے میں فرعون نظر آتے ہیں:
مذہبی فرعون، جو دین کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں
تعلیمی فرعون، جو تعلیم کو کاروبار بنا کر بچوں کے مستقبل سے کھیلتے ہیں
سماجی فرعون، جو عورت کو قدموں کی خاک سمجھتے ہیں
معاشی فرعون، جو غریب کا خون نچوڑ کر محلات بناتے ہیں
لیکن اگر ان سب کے درمیان "موسیٰ" نہ ہوں تو دنیا ختم ہو جائے۔ موسیٰ وہ طاقت ہے جو اندھیرے میں چراغ جلاتی ہے، جو غلامی کی زنجیروں کو توڑتی ہے، جو فرعون کے دربار میں جا کر کہتی ہے:
"تم جھوٹے ہو، میں سچ کے ساتھ ہوں۔"
یہ ٹکرانا آسان نہیں ہوتا۔ موسیٰ کو تنہا بھی ہونا پڑتا ہے، سفر بھی کرنا پڑتا ہے، لوگوں کی بے یقینی بھی سہنی پڑتی ہے، لیکن وہ رکتا نہیں، کیونکہ اس کے دل میں یقین ہوتا ہے — اللہ کے وعدے پر، سچائی کی طاقت پر۔
ہم سب کو موسیٰ بننے کی ضرورت ہے۔
ہمیں اپنی بستیوں، اپنے گھروں، اپنے اسکولوں، اپنے اداروں میں موجود فرعونوں کو پہچاننا ہے۔ ہمیں ان کے ظلم کے سامنے دیوار بننا ہے۔ کیونکہ اگر ہم خاموش رہے، اگر ہم نے زبان نہ کھولی، اگر ہم نے سوال نہ اٹھایا، تو ہم بھی اسی ظلم کا حصہ بن جائیں گے۔
ایک موسیٰ کا اٹھنا ایک قوم کی نجات بن سکتا ہے۔
ہو سکتا ہے آپ کو اکیلا محسوس ہو، ہو سکتا ہے آپ کی لاٹھی معمولی ہو، آپ کے پاس دولت نہ ہو، طاقت نہ ہو — لیکن اگر آپ کے اندر سچائی کا یقین ہے، تو آپ بھی ایک موسیٰ ہیں۔ اور ایک موسیٰ ہی فرعون کو گرا سکتا ہے۔
آخر میں بس اتنا کہوں گا:
فرعونوں کو للکارنے والے ہاتھ کبھی خالی نہیں رہتے۔
سچائی کے راستے پر چلنے والوں کے قدم تاریخ سنبھال لیتی ہے۔
اور وقت ایک دن ضرور کہتا ہے:
"ہر فرعون سے ایک موسیٰ ضرور ٹکراتا ہے۔۔
سیاسی فرعون، جو اقتدار کے نشے میں عوام کو روند دیتے ہیں
No comments:
Post a Comment