تحریر ساحرہ ظفر
کہانی اُس وقت کی ہے جب انسان نے پہلی بار آگ سے کھیلنا سیکھا تھا۔ اُس نے اپنے خیالات کو بھی آگ لگائی الفاظ کی صورت۔ مگر جیسے ہی یہ آگ پھیلی، حاکموں نے اِسے بجھانے کی کوشش شروع کردی۔ قدیم مصر کے ہیروغلیفی کو صرف پجاری پڑھ سکتے تھے، گویا علم پر "مقدس قفل" لگا دیا گیا۔ چین کے شہنشاہ "چن شی ہوانگ" نے تاریخ کی کتابیں جلا ڈالیں تاکہ ماضی کو مٹا کر اپنی حکمرانی کو امر کردے۔ یورپ میں چرچ نے گلیلیو کو مجبور کیا کہ وہ کہے"زمین ساکن ہےحالانکہ وہ جانتا تھا کہ یہ جھوٹ ہے۔ الفاظ کی یہ قید صدیوں تک جاری رہی۔
آج کے پاکستان میں الفاظ کی جنگ ایک نئے روپ میں ہے۔ یہاں آئین کی شق 19 کہتی ہے"بولنے کی آزادی تمہارا حق مگر یہی شق جب قومی سلامتی" کے ساتھ ٹکراتی ہے تو صحافیوں کے قلم توڑ دیے جاتے ہیں۔ 2023 میں رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے بتایا کہ پاکستان میں ہر 10 دن بعد ایک صحافی کو دھمکی ملتی ہے۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں PTA کے "فیلٹر بوٹ" نے 8 لاکھ ویب سائٹس بند کیں یعنی ہر وہ صفحہ جو طاقت کو للکارتا ہے، اُسے "دیوارِ چین" کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔ TikTok پر رقص کرتی لڑکیاں ہوں یا سیاست پر تنقید کرنے والے نوجوان، سب کی آوازیں "سرچ انجن کی قید" میں ہیں۔
مگر سب سے خطرناک قید وہ نہیں جو قانون لگاتا ہے، بلکہ وہ جو ہمارے ذہنوں نے خود بنا رکھی ہے۔ ایک سروے کے مطابق، 70% پاکستانی سمجھتے ہیں کہ مذہب، فوج، یا جنسیات پر بات کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ یہی ڈر کبھی استاد کو نصاب میں تبدیلی پر مجبور کرتا ہے تو کبھی ادیب کو اپنی کتاب کے صفحات خود ہی پھاڑنے پر۔ مشہور شاعر **فیض احمد فیض** نے کہا تھا:
*"بول کہ لب آزاد ہیں تیرے... بول، زبان اب تک تیری ہے"*
مگر ہم نے اپنی زبانیں گنگنا دی ہیں۔
مگر ہر دور میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو قید کو چیلنج کرتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے آمریت کے دور میں بھی انسانی حقوق کی بات کی۔ آج کل کے نوجوان ٹویٹر ریوالوشنب کے ذریعے حکومتوں کو للکار رہے ہیں۔ کراچی کی گلیوں میں "شاعری کلب" بنے ہیں جہاں نوجوان اپنے جذبات کو اشعار کی صورت آگ لگاتے ہیں۔ پنجاب کے ایک گاؤں میں ایک لڑکی نے ڈیجیٹل قلعہ بنا لیا ہےوہ آن لائن پلیٹ فارمز پر خواتین کو ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا سکھاتی ہے۔ یہ وہ چنگاریاں ہیں جو کبھی بھی شعلہ بن سکتی ہیں۔
اگر آپ پوچھیں کہ ہم کیا کریں؟ تو جواب سادہ ہے: "بولنا شروع کریں، مگر شعور - اپنے بچوں کو حساس موضوعات پر بات کرنے کی تربیت دیں۔
- سوشل میڈیا پر حقائق شیئر کریں گمراہ کن خبروں کے آگے دیوار بنیں۔
- مقامی سطح پر ادبی محفلیں منعقد کریں جہاں لوگ بے خوف ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔
تاریخ گواہ ہے: جب بھی الفاظ کو قید کیا گیا، وہ پھٹ پڑےخواہ وہ گلیلیو کی کتابیں ہوں جو خفیہ طور پر پھیل گئیں، یا مشرقی پاکستان کے اخبارات جنہیں 1971 میں بند کردیا گیا تھا۔ آج بھی ہر بند منہ ایک کہانی چھپائے ہوئے ہے۔ یاد رکھیے، "لفظوں کے پرندے اُڑنا جانتے ہیں بس انہیں پنجرے سے باہر دیکھنے کی ہمت چاہیے۔
No comments:
Post a Comment