"مرد روتے نہیں" – یہ جملہ صرف الفاظ نہیں، بلکہ ایک ایسا بوجھ ہے جو مردوں کی روح کو آہستہ آہستہ کچل دیتا ہے۔ یہ سماجی اصول ان کے جذبات کو قید کر کے انہیں ایسی چٹان میں بدل دیتا ہے جو ٹوٹتی تو ہے، مگر آواز نہیں کرتی۔ ہمارے معاشرے نے مردوں کو ایسا کردار سونپ دیا ہے جہاں انہیں طاقت اور برداشت کا مجسمہ بننا پڑتا ہے، لیکن اس "مردانگی" کا خراج ان کی روح ادا کرتی ہے۔
جب ایک مرد کے دل پر بوجھ ہو، جب اس کی آنکھوں میں آنسو ہوں، اور جب وہ اندر سے بکھر رہا ہو، تو بھی اسے اپنے درد کو چھپانا پڑتا ہے، کیونکہ معاشرہ اسے سکھاتا ہے کہ آنسو کمزوری کی علامت ہیں۔ وہ اپنی اذیت کو اپنے اندر دبا لیتا ہے، اپنی خاموشی میں دفن کر لیتا ہے، اور یوں اس کی روح زخموں سے بھر جاتی ہے۔ یہ جذباتی دباؤ ایک نہ ختم ہونے والی اذیت بن جاتا ہے، جو مرد کے وجود کو ختم نہیں کرتا، بلکہ اس کی روح کو مار دیتا ہے۔
مردوں کو زندگی کے ہر پہلو میں مقابلہ کرنا سکھایا جاتا ہے – چاہے وہ روزگار ہو، رشتے ہوں، یا اپنی ذات کی جنگ۔ لیکن ان سے کبھی یہ نہیں پوچھا جاتا کہ وہ کیسا محسوس کرتے ہیں۔ ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ کبھی نہیں تھکیں گے، کبھی نہیں گریں گے، اور کبھی نہیں روئیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی انسان ہیں، ان کے بھی جذبات ہیں، اور ان کا بھی حق ہے کہ وہ اپنی تکلیف کا اظہار کریں۔
روح کی موت اس وقت ہوتی ہے جب ایک مرد اپنے درد کو اپنی زبان سے کہنے کا حوصلہ کھو دیتا ہے۔ وہ اپنے زخموں کو چھپاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ زخم ناسور بن جاتے ہیں۔ وہ ہجوم میں بھی تنہا ہوتا ہے، مسکراتا ہے مگر اندر سے خالی ہوتا ہے۔ معاشرہ اس کے درد کو نظرانداز کر کے اسے "مضبوط" بناتا ہے، لیکن یہ مضبوطی صرف اس کے جسم تک محدود ہوتی ہے، اس کی روح تو کب کی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم "مرد روتے نہیں" جیسے زہریلے جملے کو ختم کریں۔ مردوں کو یہ حق دینا ہوگا کہ وہ اپنی تکلیف کا اظہار کریں، وہ روئیں، وہ اپنے جذبات کو بانٹیں۔ مرد کا رونا اس کی کمزوری نہیں، بلکہ اس کی طاقت ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ زندہ ہے، محسوس کرتا ہے، اور اپنی روح کو مرنے نہیں دینا چاہتا۔
یہ معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ مردوں کے لیے ایک ایسا ماحول پیدا کرے جہاں وہ اپنے جذبات کو چھپانے پر مجبور نہ ہوں۔ کیونکہ اگر مرد اپنی روح کو بچانے کا موقع نہیں پائیں گے، تو یہ معاشرہ خود اپنی بنیاد کھو دے گا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایک مرد کی روح بھی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی اس کے جسم کی طاقت۔ جذبات کا اظہار نہ صرف ضروری ہے بلکہ زندگی کا حقیقی ثبوت بھی ہے۔
No comments:
Post a Comment