ساحرہ ظفر
خوف… ایک ایسا جذبہ جو انسان کی روح کو جکڑ لیتا ہے، اس کے دل کی دھڑکن کو بےترتیب کر دیتا ہے، اور اس کی سانسوں میں لرزش بھر دیتا ہے۔ مگر جب خوف اپنی انتہا کو پہنچ جائے تو آنکھوں سے آنسو نہیں، خون ٹپکنے لگتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب جذبات کی شدت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ الفاظ مفلوج ہو جاتے ہیں، چیخیں اندر ہی اندر دفن ہو جاتی ہیں، اور احساسات ایک بھیانک خاموشی میں قید ہو جاتے ہیں۔
یہ خوف کسی اندھیرے کمرے میں تنہا ہونے کا نہیں، یہ خوف کسی سایے کے پیچھے چھپے وجود کا نہیں، بلکہ یہ خوف ان حقیقتوں کا ہے جنہیں ہم روز جیتے ہیں، مگر زبان پر نہیں لاتے۔ یہ خوف ناانصافیوں کا ہے، یہ خوف جبر کا ہے، یہ خوف اس لمحے کا ہے جب سچائی کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے، اور حق تلفی کو دستور بنا دیا جاتا ہے۔
یہ وہ خوف ہے جو ایک مجبور ماں کی آنکھوں میں تب نظر آتا ہے جب اس کا بچہ بھوک سے تڑپ رہا ہو اور اس کے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہ ہو۔ یہ وہ خوف ہے جو ایک بے بس بہن کے چہرے پر ابھرتا ہے جب وہ اپنے بھائی کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں دیکھتی ہے۔ یہ وہ خوف ہے جو ایک محنت کش کے ماتھے کی شکنوں میں چھپا ہوتا ہے جب وہ دن رات کی مشقت کے باوجود اپنے بچوں کو تعلیم دینے سے قاصر رہتا ہے۔
مگر یہ خوف ہمیشہ باقی نہیں رہتا۔ جب حد سے بڑھ جائے، جب سہارے ٹوٹ جائیں، جب امیدیں دم توڑنے لگیں، تب آنکھوں میں آنسو باقی نہیں رہتے، صرف خون بہتا ہے۔ یہ خون وہ پیغام ہوتا ہے جو طاقتوروں کے ایوانوں تک پہنچتا ہے، یہ وہ سوال ہوتا ہے جو ظالموں کے گریبان پکڑ لیتا ہے، یہ وہ طوفان ہوتا ہے جو اندھیروں کو بہا کر روشنی کی راہ ہموار کرتا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ خوف کا یہ رنگ ہمیشہ کے لیے ماند پڑ جائے، تو ہمیں ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا، ناانصافی کے سامنے ڈٹ جانا ہوگا، اور حق کے لیے آواز بلند کرنی ہوگی۔ کیونکہ جب تک آنکھوں میں آنسو ہیں، تب تک امید ہے، لیکن جب آنکھوں سے خون بہنے لگے، تو سمجھ لو کہ انقلاب کی راہ ہموار ہو چکی ہے۔
ساحرہ
No comments:
Post a Comment