ایک گاؤں میں احمد اور جمیل پڑوسی تھے، لیکن دونوں کے مزاج بالکل مختلف تھے۔ احمد ہر وقت مسکراتا رہتا اور دوسروں کے کام آتا۔ اگر کسی کو مشکل پیش آتی، تو احمد بغیر پوچھے مدد کے لیے پہنچ جاتا۔ لوگ اس سے خوش تھے اور اس کی صحبت میں سکون محسوس کرتے تھے۔
دوسری طرف جمیل کا رویہ بہت سخت تھا۔ لوگ اس سے بات کرتے ہوئے بھی گھبراتے تھے، کیونکہ نہ جانے کس بات پر وہ ناراض ہو جائے۔ کوئی سیدھی بات بھی کرتا تو جمیل منہ بنا لیتا اور بات کا الٹا مطلب نکال لیتا۔ رفتہ رفتہ لوگ اس سے دور ہونے لگے اور وہ تنہائی کا شکار ہو گیا۔
پھر ایک دن زبردست بارشوں کے بعد گاؤں میں سیلاب آ گیا۔ احمد نے فوراً سب کو اکٹھا کیا اور مل کر پانی نکالنے اور لوگوں کے گھروں کو بچانے میں مصروف ہو گیا۔ ہر کوئی ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے میں لگا تھا، اور احمد کی قیادت میں گاؤں کے لوگ اس مشکل وقت سے ہنسی خوشی نکل آئے۔
لیکن جمیل، جو ہمیشہ تنہائی پسند کرتا اور لوگوں سے کٹ کر رہتا تھا، مشکل میں اکیلا ہی پھنس گیا۔ نہ کسی نے اس کا حال پوچھا، نہ مدد کے لیے گیا۔ وہ ایک طرف بیٹھا سوچتا رہا کہ شاید اس کا رویہ بہتر ہوتا تو آج وہ بھی ان لوگوں کے ساتھ ہوتا، جو ایک دوسرے کے لیے خوشی اور غم بانٹ رہے تھے۔
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ رویے ہی ہماری اصل پہچان ہوتے ہیں۔ اگر ہمارا رویہ تلخ ہو، تو لوگ ہم سے دور ہو جاتے ہیں، چاہے ہمیں کتنی ہی ضرورت ہو۔ لیکن اگر ہم ہمدردی اور محبت کا راستہ اپنائیں، تو نہ صرف ہم دوسروں کے دل جیت سکتے ہیں بلکہ مشکل وقت میں بھی کبھی تنہا نہیں رہتے۔
No comments:
Post a Comment