تحریر ساحرہ ظفر
پاکستان میں یہ بات کوئی نئی نہیں کہ تعلیمی ادارے بچوں کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔ "لکیریں کھینچنا" یا "لکیر کے فقیر" بنانا، بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام کی بنیادی کمزوری بن چکی ہے۔ ہر دوسرا بچہ، چاہے اس میں کتنی ہی تخلیقی صلاحیتیں کیوں نہ ہوں، ایک مخصوص پیمانے پر پرکھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں نمبرز اور گریڈز پر اس قدر زور دیا جاتا ہے
کہ بچے کی تخلیقی سوچ کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔
ہم روزانہ ایسے مناظر دیکھتے ہیں جہاں بچے کتابی کیڑے بنا دیے جاتے ہیں، انہیں بتایا جاتا ہے کہ "رٹا لگاو، اور نمبرز لو۔" تعلیم کا مقصد محض نمبرز لینا نہیں، بلکہ زندگی کے مسائل کو حل کرنا اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنا بھی ہے۔ اس مقصد کے پیش نظر، حالیہ برسوں میں سنگل نیشنل کریکیولم متعارف کروایا گیا ہے تاکہ بچوں کو "رٹا سسٹم" سے نکال کر انہیں حقیقی دنیا کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔ لیکن کیا یہ واقعی اتنی مؤثر تبدیلی ہے جتنا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے؟ آئیے اس موضوع پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
ہمارے تعلیمی نظام میں بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں بچے کی تخلیقی سوچ کو دبایا جاتا ہے۔ آئیے کچھ روزمرہ کی مثالوں سے سمجھتے ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام بچوں کو تخلیقی سوچ سے کس طرح دور کر رہا ہے۔
"اپنی کتاب کھولو، اور یاد کرنا شروع کرو"
ہمارے یہاں امتحانات میں کامیاب ہونے کے لیے سب سے زیادہ زور "یاد کرنے" پر دیا جاتا ہے۔ اگر ایک بچہ کسی موضوع کو اپنے طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، تو اسے فوراً روکا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے، "یہ تمہاری اپنی باتیں نہیں، کتاب میں جو لکھا ہے وہی یاد کرو۔" اس طریقے سے ہم بچے کی اپنی سوچ کو دبا کر اسے محض یادداشت کا غلام بنا دیتے ہیں۔
مثال: علی کو جب سائنس کی کلاس میں پانی کے گردش کا عمل سمجھایا جا رہا تھا، اس نے استاد سے سوال کیا کہ "پانی کیسے بادل بناتا ہے؟" بجائے اس کے کہ استاد اس کے تجسس کو سراہتا اور تفصیل سے سمجھاتا، اسے کہا گیا کہ "کتاب میں جو لکھا ہے، وہی یاد کرو۔"
"صرف نمبرز اہم ہیں، سیکھنا نہیں
ہمارے تعلیمی نظام میں نمبرز کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ "جتنا یاد کرو گے، اتنے زیادہ نمبر لاؤ گے۔" اس طریقے سے بچے کی اپنی سوچ اور تخلیقی صلاحیتیں کہیں پیچھے رہ جاتی ہیں، اور وہ محض نمبرز کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔
ثانیہ، جو کہ آرٹس میں بہت دلچسپی رکھتی ہے، لیکن اس کے والدین نے اس کی آرٹ کلاسز بند کروا دیں کیونکہ ان کے خیال میں "آرٹ سے نمبر نہیں آتے"۔ اس طرح اس کی تخلیقی صلاحیتیں دب کر رہ گئیں۔
سنگل نیشنل کریکیولم تبدیلی کی ایک کوشش
سنگل نیشنل کریکیولم متعارف کروانے کا مقصد یہی ہے کہ بچوں کو "رٹا سسٹم" سے نکال کر انہیں سوچنے اور سمجھنے کی مہارتیں دی جائیں۔ اس نصاب میں زور دیا گیا ہے کہ بچے "کیوں" اور "کیسے" جیسے سوالات پوچھیں۔ اس سے ان کی تنقیدی سوچ کو فروغ ملتا ہے، اور انہیں مسائل کے حل کے طریقے سمجھ آتے
تعلیمی اداروں میں گروپ ورک اور عملی تجربات کو شامل کیا ہے تاکہ بچے محض کتابی معلومات تک محدود نہ رہیں، بلکہ حقیقی دنیا کے مسائل کا سامنا کرنے کے قابل ہوں۔
ریاض نے جب سائنس پروجیکٹ میں اپنی ٹیم کے ساتھ ایک ماڈل بنایا تو اسے معلوم ہوا کہ کیسے مختلف نظریات کو ملا کر ایک مکمل پروجیکٹ تیار کیا جا سکتا ہے۔ اس عمل سے نہ صرف اس کی تخلیقی صلاحیتیں نکھریں بلکہ اس نے ٹیم ورک کی اہمیت بھی سمجھی۔
ہمارے بچے روزمرہ کی زندگی میں تنقیدی سوچ کا استعمال کرتے ہیں، لیکن اگر انہیں اسکول میں بھی اس کی تربیت دی جائے تو وہ بہتر طریقے سے مسائل کا سامنا کر سکتے ہیں۔
جب بچے بازار میں جاتے ہیں اور قیمت اور معیار کا موازنہ کرتے ہیں، تو دراصل وہ ایک تنقیدی سوچ کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ اس عمل میں وہ سمجھتے ہیں کہ کون سی چیز زیادہ فائدہ مند ہے اور کیوں۔
مثال: علی نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر دو مختلف دکانوں سے ایک ہی چیز کی قیمت اور معیار کا موازنہ کیا، اور بہترین چیز کا انتخاب کیا۔ اگر وہ اسی تنقیدی سوچ کو تعلیمی میدان میں استعمال کرے تو وہ بہترین طالب علم بن سکتا ہے۔
اگر بچوں کو اسکول میں مختلف مواقع دیے جائیں جہاں وہ اپنے فیصلے خود کریں، تو وہ خوداعتمادی اور خودمختاری کی خوبیوں کے حامل ہو سکتے ہیں۔
مثال: زینب کو اسکول میں ایک گروپ پراجیکٹ میں لیڈر بنایا گیا، جس سے اس نے یہ سیکھا کہ کیسے مختلف لوگوں کے خیالات کو شامل کر کے ایک بہترین نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح اس کی فیصلہ سازی کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو
سنگل نیشنل کریکیولم کی یہ کوشش بلاشبہ ایک مثبت قدم ہے، لیکن اس کے نفاذ میں ابھی کئی چیلنجز ہیں۔ ہمارے اساتذہ کو جدید تدریسی مہارتیں سکھانا، اور تعلیمی اداروں کو اس نصاب کے مطابق ڈھالنا ایک وقت طلب اور مشکل کام ہے۔ اس کے علاوہ، ہمیں والدین کو بھی اس بات پر قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ نمبرز سب کچھ نہیں، بلکہ سیکھنا اور سمجھنا زیادہ اہم ہے۔
پاکستان کا تعلیمی نظام ایک تبدیلی کے سفر پر گامزن ہے۔ سنگل نیشنل کریکیولم کا مقصد ہمارے بچوں کو محض کتابی کیڑا نہیں، بلکہ ایک تخلیقی اور تنقیدی سوچ کا حامل انسان بنانا ہے۔ اگر ہم اس پر سنجیدگی سے عمل کریں اور والدین، اساتذہ، اور تعلیمی اداروں کے درمیان ایک تعاون پیدا کریں تو یقیناً ہم اپنے بچوں کو ایک کامیاب اور تخلیقی مستقبل کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment