Search This Blog

Saturday, November 2, 2024

تحریر ساحرہ ظفر لڑکوں میں تعلیم کا جزبہ پیدا کرنے کا راز


یہ ایک حقیقت ہے کہ اُستاد بادشاہ نہیں ہوتا لیکن بادشاہ بنانے میں کلیدی کردار ضرور ادا کرتا ہے۔ پاکستانی اسکولوں میں اکثر لڑکے پڑھائی سے جی چراتے ہیں اور اُسے غیر دلچسپ سمجھتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں اُستاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں میں تعلیم سے دلچسپی پیدا کرے اور انہیں اس کا مقصد اور اہمیت سمجھائے۔ اُستاد کو چاہیے کہ وہ بچوں کے ساتھ ایسا تعلق قائم کرے جو مضبوط بھی ہو اور دوستانہ بھی، تاکہ بچے اُستاد سے بے تکلفی اور اعتماد سے اپنی مشکلات بیان کر سکیں۔ اس تعلق میں احترام بھی ہو اور دوستانہ فضا بھی، تاکہ بچے اُستاد کی بات کو خوشی سے سنیں اور اس پر عمل کریں۔


اُستاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ ماہانہ ایک دن بچوں کو سیر پر لے جائے یا اُن کے ساتھ کوئی غیر نصابی سرگرمی کرے تاکہ اُن سے قریب ہو سکے اور انہیں بہتر طور پر سمجھ سکے۔ اس دوران اُستاد کو یہ جاننے کا موقع ملتا ہے کہ بچے کس چیز سے ڈرتے ہیں، کس مضمون میں کمزور ہیں، اور کس موضوع سے نفرت کرتے ہیں۔ جب اُستاد کو ہر بچے کی یہ معلومات مل جائیں، تو وہ اُن کے مسائل کے حل کے لیے بہتر حکمت عملی اپنا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی بچے کو ریاضی میں دلچسپی نہیں لیکن اُردو پسند ہے، تو اُستاد دونوں مضامین کو ملا کر دلچسپ انداز میں پڑھا سکتا ہے۔ مثلاً، اُردو کی کسی کہانی میں ریاضی کے بنیادی اصول شامل کیے جا سکتے ہیں، جیسے کہ اشعار کی تعداد کا حساب، کسی شخصیت کی عمر نکالنا، یا غزل میں مشکل الفاظ کو گننا۔ اس طرح بچے کی نہ صرف ریاضی میں دلچسپی بڑھتی ہے بلکہ اُس کا خوف بھی کم ہو جاتا ہے۔

مزید برآں، آج کل اسکولوں میں یہ رواج بن چکا ہے کہ اُستاد نصاب مکمل کروانے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں، جس سے بچوں پر ذہنی دباؤ بڑھ جاتا ہے اور پڑھائی بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس صورت میں اُستاد کو چاہیے کہ وہ مسکراتے ہوئے کلاس میں داخل ہو اور پہلے پانچ منٹ بچوں کو کوئی لطیفہ سنائے یا ہلکی پھلکی ورزش کروائے۔ جیسے "کھڑے ہو جاؤ، بیٹھ جاؤ، سر کو چھوؤ، یا اُٹھ کر چلنا شروع کرو"۔ اس طرح بچوں کا ذہنی دباؤ کم ہو جائے گا اور وہ تازہ دم ہو جائیں گے۔ ایسے غیر رسمی آغاز سے بچوں کا دل لگتا ہے اور اُن میں خوشی اور دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔

جب اُستاد پڑھائی کے دوران موضوعات کو خشک انداز میں نہ پڑھائے بلکہ کہانی کے انداز میں پیش کرے، تو بچے اُسے شوق سے سنتے ہیں۔ مثلاً، اگر اُستاد پاکستان اسٹڈیز میں سر سید احمد خان کا تعارف کروانا چاہتے ہیں، تو پہلے یہ بتائیں کہ ’سر‘ کا کیا مطلب ہےجب اُستاد سر سید احمد خان کا تعارف کرواتے ہیں تو اُنہیں چاہیے کہ بچوں کو سب سے پہلے ’’سر‘‘ کا مطلب اور اس لقب کا پس منظر بتائیں۔ یہ سوال پوچھیں کہ ’’سر‘‘ کا لقب کیا ہوتا ہے اور کیوں دیا جاتا ہے؟ اس طرح کی باتوں سے بچوں میں دلچسپی پیدا ہوگی۔ ’’سر‘‘ کا خطاب برطانوی حکومت کی طرف سے اُن لوگوں کو دیا جاتا تھا جنہوں نے برطانیہ کے لیے یا سماج کے لیے اہم خدمات انجام دیں۔ اس طرح کے سوالات پوچھنے سے بچوں کے ذہن میں تجسس پیدا ہوگا اور وہ مزید جاننے کے خواہاں ہوں گے کہ سر سید احمد خان کو یہ خطاب کیوں ملا۔

بچوں کو بتائیں کہ سر سید احمد خان وہ شخصیت تھے جنہوں نے برطانوی دور میں مسلمانوں کی بہتری کے لیے کئی اقدامات کیے۔ انہوں نے مسلمانوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی اور علی گڑھ تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک کے ذریعے انہوں نے مسلمانوں کو جدید تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی تاکہ وہ بھی ترقی کر سکیں اور اپنی شناخت برقرار رکھ سکیں۔ سر سید احمد خان کے ان اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے اُستاد بچوں سے سوال کریں کہ ’’آپ کے خیال میں سر سید کو یہ لقب کیوں دیا گیا ہوگا؟‘‘ اور ’’اُن کی کون سی خدمات اہم تھیں؟‘‘ ان سوالات سے بچوں میں موضوع سے دلچسپی بڑھے گی اور وہ کلاس میں فعال رہیں گے۔

اس طرح، جب بچوں کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ’’سر‘‘ کا لقب ایک خاص مقام اور عظمت کی علامت ہے اور سر سید احمد خان کو یہ مقام ان کی تعلیمی و سماجی خدمات کی وجہ سے ملا، تو وہ نہ صرف اس بات کو سمجھتے ہیں بلکہ ان کی شخصیت سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اس طریقہ سے سبق کو دلچسپ بنانے کے ساتھ ساتھ بچوں کو سر سید احمد خان کی خدمات اور برطانوی دور میں مسلمانوں کی تعلیم کے حالات کا علم بھی ہو جائے گا۔
اور پھر ان کی زندگی کی تصویر دکھائے
اس طرح بچے خشک مضامین کو بھی دلچسپی سے سنیں گے اور یاد رکھیں گے۔ اس طرح کا طریقہ کار بچوں کو پڑھائی کی جانب راغب کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اُستاد کو چاہیے کہ کلاس میں بچوں کا آپس میں موازنہ نہ کرے کیونکہ اس سے بچے احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اُستاد کو چاہیے کہ ہر بچے کی انفرادی صلاحیتوں کو سراہیں اور کمزور طلباء کے لیے نئے خیالات اور طریقے تلاش کریں تاکہ وہ بہتر سیکھ سکیں۔ اگر کوئی بچہ سست سیکھنے والا ہے تو اُسے تیز سیکھنے والے بچوں کے ساتھ گروپ میں شامل کریں تاکہ وہ ایک دوسرے سے کچھ نیا سیکھیں اور ترقی کریں۔

اس کے علاوہ، اسکولوں میں وقفے کو مختصر کیا جائے تاکہ بچوں کو تھکاوٹ نہ ہو اور وہ خوشی خوشی پڑھائی میں حصہ لیں۔ جب ہر کلاس سے پہلے دس منٹ کا وقفہ دیا جائے جس میں بچے دوڑیں، کھیلیں، اور اپنی توانائی بحال کریں، تو اس سے ان کی توجہ پڑھائی پر بڑھتی ہے اور ان میں دلچسپی برقرار رہتی ہے۔

اُستاد کا حقیقی فن یہی ہے کہ وہ ہر بچے کی خالی جگہ کو پورا کرے، اس کی کمیوں کو سمجھے اور ان میں یہ اعتماد پیدا کرے کہ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ ایسی مثبت اور دوستانہ فضا میں بچے نہ صرف تعلیم کو پسند کریں گے بلکہ زندگی میں کامیاب بھی ہوں گے۔

No comments: