Search This Blog

Monday, November 18, 2024

معصوم زارا اور ننھی جان

 ڈسکہ کا یہ واقعہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی نظام کی اس تلخ حقیقت کو سامنے لاتا ہے، جہاں خواتین کو اپنے ہی گھروں میں ظالموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ کہانی ایک ایسی خاتون کی ہے جو شادی کے بعد اپنے سسرال میں منتقل ہوئی تھی، ایک چار سالہ بیٹے کی ماں تھی، اور ایک نئی زندگی کو جنم دینے کے لیے سات ماہ کی حاملہ تھی۔ مگر افسوس، اس کی زندگی کو ایک دل دہلا دینے والے انجام تک پہنچایا گیا، اور اسے ایسی بربریت سے قتل کیا گیا کہ جس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ اس کی لاش کو جلا کر اس کی شناخت مٹانے کی کوشش کی گئی اور اس کے جسم کو نالے میں پھینک دیا گیا۔ یہ حادثہ محض ایک فرد کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کی بے حسی اور ظلم کی ایک جھلک ہے۔


اس خاتون کی زندگی پر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ ظلم اس کی شادی کے بعد ہی شروع ہوا ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں کئی خاندانوں میں بیٹی یا بہو کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے، اور شادی کے بعد ان کے ساتھ سسرال میں ایسا برتاؤ کیا جاتا ہے جیسے وہ کسی چیز کی مالک نہیں، بلکہ صرف خدمت گزار بن کر رہنے کے لیے آئی ہو۔ اس کے حقوق اور وقار کو اس انداز سے پامال کیا جاتا ہے کہ اس کا وجود ہی مٹ جاتا ہے۔ ایک عورت جو حاملہ تھی اور جس کے سینے میں ایک اور زندگی پل رہی تھی، اس کے ساتھ کیا گیا یہ ظلم ثابت کرتا ہے کہ ہمارا خاندانی نظام کس حد تک بوسیدہ ہو چکا ہے، جہاں خواتین کو عزت اور تحفظ دینے کی بجائے ان کا وجود ہی ختم کر دیا جاتا ہے۔


یہ واقعہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہمارے سماج میں یہ بے حسی کیوں بڑھ رہی ہے؟ کیا یہ ہمارے گھریلو نظام کی ناکامی ہے یا معاشرتی تربیت کی کمی؟ ہمارا معاشرہ جس طرح سے اپنی اقدار کھو رہا ہے اور انسانی جان کی حرمت کو فراموش کر رہا ہے، وہ ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ عورتوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ سلوک ہمارے معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتا ہے، جہاں ان کی قربانیوں اور محنت کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ لوگ اس قدر بے حس ہو چکے ہیں؟


قانونی نظام میں کمزوری، مجرموں کی آزادی اور خواتین کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ قوانین تو بنائے جاتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے جرائم کے بعد اکثر مجرم بچ نکلتے ہیں، اور متاثرہ خاندان انصاف کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ اس سے نہ صرف متاثرہ خاندان کو دکھ پہنچتا ہے بلکہ معاشرتی نظام بھی مجرموں کی ناپاک حرکات کا شکار ہو جاتا ہے۔ ان واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خواتین کے تحفظ کے لیے قوانین میں سختی اور ان پر عملدرآمد کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک کہ قوانین کو مؤثر اور فوری طور پر نافذ نہیں کیا جائے گا، ایسے واقعات میں کمی کی امید رکھنا عبث ہے۔


ڈسکہ کے اس واقعے نے یہ بھی ظاہر کیا کہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں انسانی ہمدردی اور محبت کی کمی ہے۔ اگر ایک خاندان کے افراد ہی اپنی بہو کے ساتھ اس طرح کا سلوک کر سکتے ہیں تو ہم کیسا معاشرہ تعمیر کر رہے ہیں؟ ہمارا مذہب، ہماری روایات اور ہماری تہذیب ہمیں عورت کی عزت اور اس کی حفاظت کا درس دیتے ہیں، مگر یہ واقعات ان تمام اصولوں کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں۔ کیا ہم نے واقعی اپنے آپ کو اس قدر بے حس بنا لیا ہے کہ کسی کی زندگی اور اس کے وجود کی کوئی قیمت باقی نہ رہے؟


ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہر گھر، ہر محلے اور ہر معاشرتی سطح پر خواتین کو احترام اور تحفظ فراہم کیا جائے۔ ہمیں یہ شعور پیدا کرنا ہوگا کہ خواتین بھی انسان ہیں، ان کے بھی جذبات ہیں اور انہیں بھی برابر کے حقوق ملنے چاہئیں۔ اگر ہم واقعی ایک مہذب معاشرہ بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے رویے، اپنی سوچ اور اپنے معاشرتی نظام میں تبدیلی لانی ہوگی۔


ڈسکہ کا یہ واقعہ ایک چیخ ہے، ایک فریاد ہے، ایک پکار ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو اس گندگی سے پاک کریں۔ جب تک ہم سب مل کر اس ناانصافی کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے، تب تک ہمارے معاشرے میں ایسے اندوہناک واقعات ہوتے رہیں گے۔ ہمیں اس خاتون کے لیے انصاف مانگنا چاہیے، تاکہ اس کی قربانی رائیگاں نہ جائے اور دیگر خواتین کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ ان کی زندگی کی قدر کی جاتی ہے۔

 اس واقعے کے بعد ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی سطح پر بیداری پیدا کریں اور اپنے معاشرتی ڈھانچے میں بہتری لائیں۔ اس مظلوم خاتون کی یاد ہمیں یہ احساس دلائے کہ جب تک ہم انصاف، محبت، اور انسانی ہمدردی کو اپنانے کی کوشش نہیں کریں گے، تب تک ہم ایک حقیقی اور محفوظ معاشرہ تشکیل نہیں دے سکتے۔


No comments: