Search This Blog

Sunday, January 26, 2025

کیا اللہ صرف جنت دوزخ کے لیے ہے۔

 


اللہ سے محبت ایک ایسا انمول احساس ہے جو نہ کسی کتاب سے سیکھا جا سکتا ہے، نہ کسی استاد سے۔ یہ دل کی گہرائیوں سے ابھرتا ہے اور روح کو سکون بخشتا ہے۔ یہ محبت ہمیں اپنی زندگی کے ہر لمحے میں محسوس ہو سکتی ہے، بشرطیکہ ہم اس پر غور کریں۔ صبح کی پہلی کرن جو اندھیروں کو چیر کر روشنی لاتی ہے، ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اللہ ہر اندھیرے کے بعد روشنی کا انتظام کرتا ہے۔ بارش کی وہ بوند جو زمین کو تازگی بخشتی ہے، اس بات کی علامت ہے کہ اللہ ہماری زندگی کی خشکی کو اپنی رحمتوں سے سرسبز کر سکتا ہے۔ بچوں کی معصوم مسکراہٹ، ماں کی محبت، یا غیر متوقع طور پر کسی مصیبت سے نکلنے کا راستہ—یہ سب اللہ کی محبت کے جیتے جاگتے ثبوت ہیں۔
ہمیں عموماً اللہ کے بارے میں صرف جنت اور دوزخ کے تناظر میں سوچنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ جنت کی چوڑائی اور دوزخ کے خوفناک مناظر ہمارے ذہنوں پر حاوی رہتے ہیں، لیکن اللہ کی قربت اور اس کی بے پایاں محبت کو سمجھنے کا ذکر کم ہوتا ہے۔ اللہ ہمیں صرف انعام دینے یا سزا دینے والا نہیں، بلکہ وہ ایک مہربان خالق ہے جو ہماری ہر ضرورت کا خیال رکھتا ہے، ہماری دعاؤں کو سنتا ہے، اور ہمیں بغیر مانگے بھی عطا کرتا ہے۔
اللہ کی محبت کو سمجھنے کے لیے شکرگزاری ایک اہم ذریعہ ہے۔ ہر چھوٹی بڑی نعمت کے لیے دل سے شکر ادا کریں، چاہے وہ صحت ہو، سکون ہو، یا ایک گلاس پانی۔ جب ہم شکر گزار ہوتے ہیں، تو ہمارے دل میں اللہ کی قربت کا احساس بڑھتا ہے۔ اس کے علاوہ، نماز ایک ایسا ذریعہ ہے جو ہمیں اللہ سے جڑنے کا موقع دیتا ہے۔ نماز میں صرف الفاظ دہرانا نہیں بلکہ دل کی بات کرنا اور اللہ کی موجودگی کو محسوس کرنا ہمیں اس کی محبت کے قریب لاتا ہے۔ قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا اور اس کے پیغام پر غور کرنا بھی اللہ کی محبت کو گہرا کرتا ہے۔
اللہ کی مخلوق سے محبت کرنا بھی اللہ سے محبت کا عملی اظہار ہے۔ کسی بھوکے کو کھانا کھلانا، کسی پریشان حال کو تسلی دینا، یا کسی بیمار کی عیادت کرنا—یہ سب اللہ کی محبت کو پانے کے راستے ہیں۔ یہ اعمال نہ صرف ہمارے دل کو سکون دیتے ہیں بلکہ اللہ کے قریب ہونے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔
اللہ سے محبت کا سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ یہ خوف کو ختم کر کے سکون اور اعتماد پیدا کرتی ہے۔ جب ہمیں یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اللہ ہماری زندگی کے ہر لمحے میں ہمارے ساتھ ہے، تو ہم بے خوف ہو جاتے ہیں۔ یہ محبت ہمیں دنیاوی مشکلات سے لڑنے کی طاقت دیتی ہے اور ہمارے دل کو اطمینان بخشتا ہے۔ اللہ سے محبت کریں، کیونکہ وہی ہمارا اصل سہارا ہے، اور اس کی محبت ہمیں ہر خوف، پریشانی، اور مایوسی سے آزاد کر سکتی ہے۔

محنت اور فوکس کبھی ناکام نہیں ہوتا

 

Thursday, January 23, 2025

روشنی کے دیپ جلانے والی استاد

 


ایک دن، زندگی نے مجھے ایک سوالیہ نشان کے ساتھ گھیرا ہوا تھا۔ یہ سوالیہ نشان میری ذات، میرے خوابوں، اور میرے راستے کے گرد گھوم رہا تھا۔ میں اپنی کتابوں کے درمیان بیٹھی اس بات کو سوچ رہی تھی کہ کیا کوئی ہے جو ان سوالوں کا جواب دے؟ کیا کوئی ہے جو میرے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا حوصلہ دے؟

Friday, January 17, 2025

معاشرتی رویے کا آئینہ



ہمارا معاشرہ اس وقت ایک ایسے زہریلے رجحان کا شکار ہے جو دوسروں کو نیچا دکھانے کو معمول بنا چکا ہے۔ خاص طور پر تعلیم یافتہ افراد پر طنز کرنا، جیسے "تمہارے پاس ڈگری ہے، پھر بھی جواب نہیں دے سکے؟" یا "اتنے پڑھے لکھے ہو، یہ سوال نہیں آتا؟"، ان کی قابلیت اور عزت نفس کو ٹھیس پہنچانے کا باعث بنتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف افراد کی تخلیقی صلاحیتوں کو دباتا ہے بلکہ معاشرتی ترقی کے عمل کو بھی متاثر کرتا ہے۔

Monday, December 30, 2024

جھکنے میں عظمت (تحریر ساحرہ ظفر)

 نماز میں سجدے کی حالت وہ لمحہ ہے جب انسان اپنی انا، غرور، اور دنیاوی تکبر کو مٹی میں ملا دیتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بندہ اپنی حقیقت کو پہچانتا ہے اور رب کی عظمت کے سامنے جھک جاتا ہے۔ ماتھے کا زمین پر ٹیکنا اور ہاتھوں کا عاجزی سے زمین پر رکھ دینا صرف ایک عمل نہیں بلکہ ایک زبردست پیغام ہے۔ یہ پیغام کہ میں اپنی ساری طاقت، ہنر، اور اختیارات کو تیرے آگے سرنڈر کر رہا ہوں، اے میرے مالک!

Friday, December 27, 2024

خود غرضی کے پردے تحریر ساحرہ ظفر

 


کیا آپ نے کبھی ان لوگوں کو دیکھا ہے جو بنا کسی جھجک کے میٹھے الفاظ کا لبادہ اوڑھ کر آپ کی زندگی میں داخل ہوتے ہیں؟ ان کے انداز ایسے نرم، باتیں ایسی مٹھاس بھری، اور رویہ ایسا ہمدردانہ ہوتا ہے کہ پہلی نظر میں لگتا ہے جیسے یہ آپ کے لیے دل و جان سے مخلص ہیں۔ لیکن جیسے ہی وقت کی دھول بیٹھتی ہے، ان کے ارادے بے نقاب ہونے لگتے ہیں، اور سچائی کا سورج ان کی مصنوعی چمک کو دھندلا کر دیتا ہے۔

Thursday, December 26, 2024

روح کی موت: مرد کیوں مرتے ہیں؟تحریر ساحرہ ظفر

 

"مرد روتے نہیں" – یہ جملہ صرف الفاظ نہیں، بلکہ ایک ایسا بوجھ ہے جو مردوں کی روح کو آہستہ آہستہ کچل دیتا ہے۔ یہ سماجی اصول ان کے جذبات کو قید کر کے انہیں ایسی چٹان میں بدل دیتا ہے جو ٹوٹتی تو ہے، مگر آواز نہیں کرتی۔ ہمارے معاشرے نے مردوں کو ایسا کردار سونپ دیا ہے جہاں انہیں طاقت اور برداشت کا مجسمہ بننا پڑتا ہے، لیکن اس "مردانگی" کا خراج ان کی روح ادا کرتی ہے۔

Tuesday, December 24, 2024

قلم کی طاقت: تضاد سے روشنی تک تحریر ساحرہ ظفر

 


ایک لکھاری کا قلم محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک عہد ہے، ایک تحریک ہے جو دلوں کو چھوتی اور ذہنوں کو روشنی دیتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں، جہاں تضاد اور الجھنیں پہلے ہی سوچ کو بوجھل کر رہی ہیں، ایک لکھاری کی ذمہ داری دوگنی ہو جاتی ہے۔ اس کا ہر لفظ نہ صرف خیالات کی عکاسی کرے بلکہ سوچ کو ایک مثبت سمت بھی عطا کرے۔

Monday, December 23, 2024

انسان، محبت اور پیسے کی غلامی تحریر ساحرہ ظفر

 


انسان کو اس دنیا میں محبت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ ایک ایسا جذبہ ہے جو زندگی کو خوبصورت اور بامعنی بناتا ہے۔ محبت انسانیت کی بنیاد ہے، جس سے رشتے مضبوط ہوتے ہیں، دلوں میں قربت پیدا ہوتی ہے، اور زندگی میں سکون آتا ہے۔ لیکن آج کے دور میں، محبت اپنی اصل شکل سے دور ہوتی جا رہی ہے، اور پیسہ اس کی جگہ لے رہا ہے۔

Saturday, December 21, 2024

مرد کا دل نہیں؟تحریر ساحرہ ظفر

 

ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں مرد کو صرف ایک کردار کی صورت میں دیکھا جاتا ہے—مضبوط، غیر متزلزل، اور جذبات سے عاری۔ جیسے وہ لوہے کا بنا ہو، جسے کوئی دکھ، کوئی تکلیف نہیں پہنچتی۔ یہی سوچ اسے انسان کی جگہ ایک مشین میں بدل دیتی ہے۔ کسی گھر میں موت ہو تو میت کو ہمیشہ خواتین کے حصے میں رکھا جاتا ہے، اور مرد باہر کھڑے ہوتے ہیں، جیسے ان کا اس غم سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ ایک بھائی اپنی بہن کے بچھڑنے پر آنسو نہیں بہا سکتا، ایک بیٹا اپنے والد کے جنازے پر دکھ ظاہر نہیں کر سکتا، کیونکہ معاشرہ اسے یاد دلاتا ہے: "تم مرد ہو، مضبوط بنو!" لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مرد انسان نہیں؟ کیا ان کے سینے میں دل نہیں دھڑکتا؟

Saturday, December 14, 2024

"آہوں کی خاموش دعا تحریر ساحرہ ظفر



کہا جاتا ہے کہ آہیں بے زبان ہوتی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی خاموشی میں ایک فریاد چھپی ہوتی ہے، جو سیدھا عرش تک جاتی ہے۔ آہیں وہ زبان ہیں جو لفظوں سے ماورا ہوتی ہیں، جنہیں سمجھنے کے لیے دل کی سماعت چاہیے۔ یہ وہ دعائیں ہیں جو آنکھوں کے آنسو اور دل کی دھڑکنوں کے ساتھ اللہ کے حضور پیش کی جاتی ہیں۔

کچھ لفظوں کی تاثیر۔تحریر ساحرہ ظفر

 کچھ باتیں زہر کی طرح ہوتی ہیں، جنہیں بار بار دہرایا جائے تو ان کی تاثیر اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ زندگی کو برباد کر دیتی ہیں۔ یہ تلخ الفاظ اور رویے، چاہے کتنے ہی معمولی کیوں نہ لگیں، دل و دماغ پر گہرے زخم چھوڑ دیتے ہیں۔ اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ مرد اپنی بیویوں کو اہمیت نہیں دیتے، ان کے ساتھ کوئی بات شیئر کرنا توہین سمجھتے ہیں، اور ہر موقع پر اپنی انا اور اکڑ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ سب صرف اس لیے کرتے ہیں کہ دنیا ان کو "بڑا مرد" سمجھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا رویہ رکھنے والے مرد نہیں، بلکہ نامرد ہوتے ہیں۔

Tuesday, December 10, 2024

"غصے کی کھڑکی"تحریر ساحرہ ظفر

 کھڑکی ہمیں باہر کا منظر دکھاتی ہے، اور غصہ ہمارے اندر کا۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہماری اصل شخصیت بے نقاب ہوتی ہے۔ لفظ، جذبات اور خیالات—سب کچھ سامنے آ جاتا ہے۔

Sunday, December 8, 2024

انسان حد میں رہے( ساحرہ ظفر)

 

زندگی میں بے شمار خواہشات اور طلبیں ہیں، لیکن یہ صرف وہی انسان کامیاب اور خوشحال بنا سکتا ہے جو اپنی حدود کا احترام کرتا ہے۔ انسان کی سب سے بڑی طاقت اس کی عقل میں ہے، اور اس کا سب سے اہم امتحان اسی بات میں ہے کہ وہ اپنے جذبات، خواہشات اور سرگرمیوں میں اعتدال کیسے برقرار رکھتا ہے۔ ہم نے یہ سنا ہے کہ "ہر چیز کی زیادتی نقصان دہ ہے"، لیکن ہم اکثر اس سادہ اور سچی حقیقت کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بے لگام خواہشات، بے قابو جذبات اور بے جا خرچیں انسان کی فلاح و بہبود کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔

Saturday, December 7, 2024

تخلیق کے زاویے


تحریر: ساہرہ ظفر


ایک سرد شام تھی، میں اپنی کتابوں میں گم تھی کہ اچانک کسی نے سوال کیا، "کیا تمہیں پتہ ہے، جب تاج محل بن رہا تھا، تب دنیا میں یونیورسٹیاں تعمیر ہو رہی تھیں؟" یہ سن کر میری سوچوں کے سمندر میں ایک ہلچل مچ گئی۔

Monday, November 18, 2024

معصوم زارا اور ننھی جان

 ڈسکہ کا یہ واقعہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی نظام کی اس تلخ حقیقت کو سامنے لاتا ہے، جہاں خواتین کو اپنے ہی گھروں میں ظالموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ کہانی ایک ایسی خاتون کی ہے جو شادی کے بعد اپنے سسرال میں منتقل ہوئی تھی، ایک چار سالہ بیٹے کی ماں تھی، اور ایک نئی زندگی کو جنم دینے کے لیے سات ماہ کی حاملہ تھی۔ مگر افسوس، اس کی زندگی کو ایک دل دہلا دینے والے انجام تک پہنچایا گیا، اور اسے ایسی بربریت سے قتل کیا گیا کہ جس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ اس کی لاش کو جلا کر اس کی شناخت مٹانے کی کوشش کی گئی اور اس کے جسم کو نالے میں پھینک دیا گیا۔ یہ حادثہ محض ایک فرد کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کی بے حسی اور ظلم کی ایک جھلک ہے۔

Friday, November 15, 2024

زندگی کے انتخاب: کیا ہم شروع میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتے ہیں

 

ساحرہ ظفر 


زندگی میں ہم ہر دن نئے فیصلے کرتے ہیں، اور اکثر ہم وہ فیصلے فوری طور پر، بغیر کسی گہرے غور و فکر کے کر لیتے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا کہ ہم کس چیز کو ترجیح دیں گے، کہیں نہ کہیں ہماری زندگی کی سمت کو متاثر کرتا ہے۔

Monday, November 11, 2024

نیا نصاب اور ہم

 تحریر ساحرہ ظفر


پاکستان میں یہ بات کوئی نئی نہیں کہ تعلیمی ادارے بچوں کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔ "لکیریں کھینچنا" یا "لکیر کے فقیر" بنانا، بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی نظام کی بنیادی کمزوری بن چکی ہے۔ ہر دوسرا بچہ، چاہے اس میں کتنی ہی تخلیقی صلاحیتیں کیوں نہ ہوں، ایک مخصوص پیمانے پر پرکھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں نمبرز اور گریڈز پر اس قدر زور دیا جاتا ہے

Saturday, November 9, 2024

صرف وہ مالک ہے

 

تحریر ساحرہ ظفر

انسان کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی حقیقت کو پہچانے اور اپنی سرکشی سے بچ کر اپنے خالق کی رضا کی طرف قدم بڑھائے۔ جب انسان اپنی بےنیازی میں مبتلا ہو جاتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ آخرکار اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ سورة العلق کی آیات 6 تا 15 ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہیں کہ جو شخص اللہ کی رضا کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے، وہ نہ صرف اللہ کے حقوق بلکہ دوسروں کے حقوق بھی پامال کرتا ہے۔

Friday, November 8, 2024

مرد کے معاشرے میں عورت کے لئے حفاظت اور عزت کے مسائل


تحریر ساحرہ ظفر 


مرد کے معاشرے میں عورت ہمیشہ سے آزمائشوں اور چیلنجز کا سامنا کرتی آئی ہے۔ ہر عورت چاہے جتنی بھی محتاط، باعزت، اور خودمختار ہو، اسے قدم قدم پر کسی نہ کسی طرح مردوں کی نگاہوں میں پوشیدہ ہوس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہوس بسا اوقات نظروں میں جھلکتی ہے، کبھی رویوں میں ظاہر ہوتی ہے اور کبھی الفاظ کی صورت میں کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔

علم کی روشنی

 

علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کی روشنی انسان کو نہ صرف دنیا میں رہنمائی فراہم کرتی ہے بلکہ اسے روحانی بلندیوں کی جانب بھی لے جاتی ہے۔ قرآن مجید کے سورہ علق کی ابتدائی آیات، جو وحی کی ابتدا بھی ہیں، ہمیں علم کے عظیم مرتبے اور اللہ کی بے پایاں کرم نوازی کی یاد دلاتی ہیں:

Saturday, November 2, 2024

استاد بھی ایک انسان ہے ۔۔تحریر ساحرہ ظفر

 ہم سب اس بات پر گفتگو کر رہے ہیں کہ ایک اُستاد کو کامل ہونا چاہیے، مگر میرا یہ بھی ماننا ہے کہ اُستاد کی تربیت کا پہلو بھی انتہائی ضروری ہے۔ ایک کامیاب 

تحریر ساحرہ ظفر لڑکوں میں تعلیم کا جزبہ پیدا کرنے کا راز


یہ ایک حقیقت ہے کہ اُستاد بادشاہ نہیں ہوتا لیکن بادشاہ بنانے میں کلیدی کردار ضرور ادا کرتا ہے۔ پاکستانی اسکولوں میں اکثر لڑکے پڑھائی سے جی چراتے ہیں اور اُسے غیر دلچسپ سمجھتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں اُستاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں میں تعلیم سے دلچسپی پیدا کرے اور انہیں اس کا مقصد اور اہمیت سمجھائے۔ اُستاد کو چاہیے کہ وہ بچوں کے ساتھ ایسا تعلق قائم کرے جو مضبوط بھی ہو اور دوستانہ بھی، تاکہ بچے اُستاد سے بے تکلفی اور اعتماد سے اپنی مشکلات بیان کر سکیں۔ اس تعلق میں احترام بھی ہو اور دوستانہ فضا بھی، تاکہ بچے اُستاد کی بات کو خوشی سے سنیں اور اس پر عمل کریں۔

Friday, November 1, 2024

لڑکوں میں پڑھائی کے رجحان کو کیسے بڑھایا جائے۔تحریر ساحرہ ظفر



لڑکوں میں پڑھائی کا شوق پیدا کرنے کے لیے والدین اور اساتذہ کا متوازن کردار ضروری ہے۔ بچہ تقریباً چھ گھنٹے اسکول میں گزارتا ہے، لیکن اٹھارہ گھنٹے گھر میں والدین کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لیے والدین کا بچوں کے ساتھ برتاؤ ان کے پڑھائی کے شوق پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ یہاں تین عام والدین کے رویوں کا جائزہ لیا گیا ہے اور یہ کہ ہر رویہ بچے کے مطالعے کے رجحان کو کیسے متاثر کرتا ہے۔

Thursday, October 31, 2024

لڑکے تعلیم سے کیوں ڈرتے ہیں تحریر ساحرہ ظفر

میرے خیال میں کئی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے لڑکے عموماً پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتے۔ ان کی حوصلہ افزائی پر بات کرنے سے پہلے، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وہ تعلیمی میدان سے دور کیوں ہو جاتے ہیں۔

Monday, October 28, 2024

حسد: آج کے معاشرے کا ناسور

 

حسد ایک ایسا ناسور ہے جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔ یہ جذباتی بیماری انسان کے دل کو سکون سے


آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں

 ‏ریسرچ کے مطابق آج کل ذہنی دباؤ کی ایک بڑی وجہ اپنے اردگرد کے احمقوں سے نمٹنا ہے -

ایک دانا شخص سے کسی نے پوچھا کہ” آپ اتنے خوش کیسے رہتے ہیں

 


Tuesday, October 22, 2024

کرسی کی تاریخ: طاقت، ثقافت اور آرام کی علامت



کرسی کا تصور جتنا عام نظر آتا ہے، اس کی تاریخ اتنی ہی دلچسپ اور قدیم ہے۔ انسانی تہذیب کے ارتقا کے ساتھ، بیٹھنے کے طریقے بھی بدلے۔ کرسی محض ایک روزمرہ کا فرنیچر نہیں بلکہ طاقت، حیثیت، فن، اور ثقافتی تبدیلیوں کا آئینہ دار رہی ہے۔


 

کرسی کا آغاز ابتدائی تہذیبوں میں طاقت اور اختیار کی علامت کے طور پر ہوا۔ مصر، یونان اور روم جیسی قدیم تہذیبوں میں تخت نما کرسیاں بادشاہوں، فلاسفروں، اور اعلیٰ شخصیات کے لیے مخصوص تھیں۔ مصر کے فرعونوں کی کرسیاں سونے اور قیمتی پتھروں سے مزین ہوتی تھیں، جو ان کے رتبے کی عکاس تھیں۔ عام لوگ زمین پر یا چٹائیوں پر بیٹھتے تھے، جس سے کرسی کا تعلق اشرافیہ سے واضح ہوتا تھا۔

بامِ فکر: شعور کی بیداری کا سفر

  


زندگی کے اس تیز رفتار دور میں، ہم سب کو ایک ایسے مقام کی تلاش ہوتی ہے جہاں ہم اپنی سوچوں کو پروان چڑھا سکیں۔ بامِ فکر ایک ایسی جگہ ہے جہاں ذہن کو وسعت ملتی ہے، خیالات نئی راہیں اختیار کرتے ہیں، اور شعور کی بیداری کا سفر شروع ہوتا ہے۔

تعلیم کی کرن



علی ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔ صبح سویرے اس کے ہم عمر بچے اسکول جاتے تھے، لیکن علی کا دن کھیتوں میں مزدوری کرتے گزرتا تھا۔ اس کے والدین سمجھتے تھے کہ تعلیم امیروں کا شوق ہے، جبکہ غربت کے شکار لوگوں کو صرف پیٹ بھرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ علی بھی یہی سوچنے لگا کہ شاید اس کی زندگی ہمیشہ اسی طرح گزرے گی۔


ایک دن گاؤں کے اسکول میں ایک نئی استانی، مریم بی بی، آئیں۔ انہوں نے دیکھا کہ علی جیسے کئی بچے اسکول کے باہر کھیل رہے ہیں یا مزدوری کر رہے ہیں۔ مریم بی بی نے فیصلہ کیا کہ وہ ان بچوں کے والدین سے بات کریں گی اور انہیں تعلیم کی اہمیت سمجھائیں گی۔


جب مریم بی بی علی کے گھر پہنچیں تو علی کے والد غصے میں بولے، "ہمیں اسکول نہیں، مزدوری کرنے والے ہاتھوں کی ضرورت ہے!"

مگر مریم بی بی نے نرمی سے کہا، "اگر علی پڑھ لکھ جائے گا، تو وہ نہ صرف اپنے گھر بلکہ گاؤں کی قسمت بھی بدل سکتا ہے۔" انہوں نے علی کی ماں کو سمجھایا کہ تعلیم صرف کتابوں کا بوجھ نہیں، بلکہ ایک بہتر زندگی کا دروازہ ہے۔


علی کی ماں کچھ دیر کے لیے سوچ میں پڑ گئی۔ اگلے دن علی پہلی بار اسکول گیا۔ شروع میں اسے مشکل پیش آئی، مگر آہستہ آہستہ وہ پڑھائی میں دلچسپی لینے لگا۔ چند مہینوں میں علی نہ صرف پڑھنے لگا بلکہ اپنے خواب بھی دیکھنے لگا — وہ ڈاکٹر بننا چاہتا تھا تاکہ گاؤں کے بیمار لوگوں کا مفت علاج کر سکے۔


علی کے والدین کو جب یہ احساس ہوا کہ ان کا بیٹا پڑھائی میں اچھا ہے اور اپنے خوابوں کے پیچھے بھاگ رہا ہے، تو انہیں خوشی ہوئی کہ انہوں نے علی کو اسکول بھیجا۔ علی کے ساتھ ساتھ گاؤں کے دیگر بچے بھی تعلیم حاصل کرنے لگے، اور گاؤں میں ایک مثبت تبدیلی کی لہر دوڑ گئی۔


یہ سب مریم بی بی کی کوششوں کا نتیجہ تھا، جنہوں نے علی جیسے بچوں کو تعلیم کی نئی دنیا سے روشناس کروایا۔ علی کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ تعلیم نہ صرف فرد کی بلکہ پورے معاشرے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔


"تعلیم زندگی کی نئی راہیں کھولتی ہے۔"


Sunday, October 20, 2024

رویوں کی کہانی

 


ایک گاؤں میں احمد اور جمیل پڑوسی تھے، لیکن دونوں کے مزاج بالکل مختلف تھے۔ احمد ہر وقت مسکراتا رہتا اور دوسروں کے کام آتا۔ اگر کسی کو مشکل پیش آتی، تو احمد بغیر پوچھے مدد کے لیے پہنچ جاتا۔ لوگ اس سے خوش تھے اور اس کی صحبت میں سکون محسوس کرتے تھے۔

Monday, October 14, 2024

معاشرے کی کہانی


 ہر معاشرے کے اندر سماجی نابرابری ,برائیاں, بدعات, تعصب ,تخریب کاری, اناپرستی, و اقربا پرستی کی بدعاتی موجود ہوتی ہیں. لیکن آج سے 1400سو سال قبل نبی برحق صلی اللہ علیہ وصلم کی آمد کے ساتھ ہی اسلام نے ایک نیا فلسفہ زندگی پیش کیا جس میں ان سب برائیوں سے قطع تعلق و منع فرمایا گیا. اور عملی طور پر ایک نمونہ زندگی ہمارے